URDU encyclopedia

اردو انسائیکلوپیڈیا

search by category

قسم کے ذریعہ تلاش کریں

search by Word

لفظ کے ذریعہ تلاش کریں

Professionalsپیشہ ور افراد

Scribe دستاویز نویس (چھاپہ خانہ ایجاد ہونے سے پہلے وہ مُنشی جو دستی کاپیاں تیّار کیا کرتے تھے)

English NameScribe
Urdu Name کاتب ۔ پٹواری ۔ مُنشی

Description

تفصیل

وہ شخص جو پیشے کے طور پر اپنے قلم سے دستاویزات لکھتا ہے اُسے ’’دستاویز نویس‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا کام تحریروں کی نقل کرنا تھا جن میں مقدس کتابیں، اہم دفتری خطوط، انتظامی ہدایات(جنہیں منتظم بعض اوقات اِملا کرایا کرتا تھا) بھی شامل ہوتی تھیں۔ ان تحریروں میں کاروباری معاملات، منصفین کے فیصلے، تاریخی شواہد، بادشاہوں اور حکومت کے اہم ذمہ داروں کے مطالعے کے لئے عبادت گاہوں اور شہروں کی تفصیلات موجود ہوتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی مختلف نقشے اور تصاویر بھی بنائی جاتی تھیں جن میں رنگ بھرنے کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ یہ تمام تحریریں جو دستاویز نویس لکھا کرتے تھے اُن کے لئے مختلف ناموں سے پیشے وجود میں آگئے مثلاً عام ملازمین، صحافی، حساب نویس، ٹائپسٹ اور وکلاء وغیرہ۔ نتیجے کے طور پر وہ کام جو صرف ایک یا چند دستاویز نویس کیا کرتے تھے، اب وہ بہت سے لوگوں میں تقسیم ہوگیا۔ یہ دستاویز نویس شاہی عدالتوں کا حصّہ سمجھے جانے کی وجہ سے کسی قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ تھے۔ اسی طرح ان پر یہ پابندی بھی عائد تھی کہ وہ فوج کی ملازمت نہیں کرسکتے تھے، اور انہیں ایک اعلیٰ درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ یہ لوگ اپنے ساتھ ایسے فنکار بھی رکھتے تھے جو اچھے مصوّر ہوتے تھے اور ان کی تحریروں میں جہاں اُنہیں تصویروں یا خاکوں کی ضرورت ہوتی، ان مصوّروں سے مدد لیتے تھے۔ بلاشبہ ان کا کام ایک بہت بڑا تاریخی سرمایہ ہے جو اُس دور کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عبرانی زبان کے دستاویز نویس جنہیں ’’صوفر‘‘ (Sofer) کہا جاتا ہے آج بھی چمڑے پر تورات کی آیات (اُن کے اپنے عقیدے کے مطابق) لکھتے ہیں۔ قرآنِ مجید کے بے شمار مخطوطات یورپ کے کتب خانوں میں آج بھی موجود ہیں۔ نورالدین زنگی اور اورنگزیب عالمگیر وہ حکمراں تھے جن کے متعلق یہ مشہور ہے کہ یہ قرآنِ شریف اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر کا دستی قرآنی نسخہ بادشاہی مسجد لاہور میں آج بھی محفوظ ہے۔ واضح رہے کہ اورنگ زیب عالمگیر وہ مُغل بادشاہ تھا جس نے کم و بیش نصف صدی تک برِّ صغیرپرحکومت کی لیکن سرکاری خزانے سے ایک پیسہ لینے کی بجائے اپنی گزر اوقات کے لیے اپنے ہاتھ سے نمازیوں کی ٹوپیاں سِیا کرتا اور قرآنِ پاک کی کتابت کیا کرتا۔ اس کے علاوہ مصر اور سعودی عرب کے مختلف کتب خانوں میں متعدد صحابہ کرام کے ہاتھوں سے لکھے ہوئے قرآنِ مجید کے نسخے، اہم خطوط اور دیگر دستاویزات بھی محفوظ ہیں۔ چھاپہ خانے کی ایجاد نے اب اس فن کی اہمیت کو بہت کم کر دیا ہے بلکہ ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔ تاہم آج بھی بعض جگہوں پر یہ طریقہ رائج ہے اور بیشتر دستاویزات قلم سے لکھ کر عدالت کی مُہر ثَبت کرانے کے بعد قانونی دستاویز کی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں۔ اس کی بہترین مثال نکاح نامہ، جائیداد اور لین دین کے بعض مُعاہدات(ایگری مینٹس) وغیرہ ہیں جو آج بھی دستی طور پر تیّار کیے جاتے ہیں اور ایک مُستند دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات جُدا ہے کہ ان دستاویزات کے فارم کمپیوٹر سے کمپوز کرلیے جاتے ہیں۔

Poetry

Pinterest Share