URDU encyclopedia

اردو انسائیکلوپیڈیا

search by category

قسم کے ذریعہ تلاش کریں

search by Word

لفظ کے ذریعہ تلاش کریں

Colorsرنگ

Light Brown خاکی ∕ ہلکا بھورا

English NameLight Brown
Image

Description

تفصیل

خاکی یا ہلکے بھُورے رنگ کو "مٹیالا" رنگ بھی کہا جاتا ہے۔یہ زردی مائل سیاہ رنگ ہی ہوتا ہے۔ ہندی زبان میں نیلے کبوتر کو جس کا کوئی پَر سفید نہ ہو ، اُسے بھی "خاکی یا بھُورا" کہتے ہیں۔اُردو لُغت میں " بُھورا یا خاکی" گاؤں کی اُس زمین کو بھی کہتے ہیں جو بہت دور ہو۔ خاکی، بُھورا یا ہلکا بھورا دراصل مشترکہ رنگوں کی ایک اصطلاح (کا نام) ہے جو نارنجی ، سُرخ ، گلابی اور پیلے رنگوں کو سیاہ یا سُرمئی رنگوں کے ساتھ ملانے سے وجود میں آتی ہے۔قدیم انگریزی زبان میں اس رنگ کو Brun کے نام سے پُکارا گیا جو رفتہ رفتہ " براؤن" ہو گیا۔جرمنی میں اس رنگ کو Brunoz or Bruna کہا گیا۔ چودہویں صدی عیسوی میں اسے موجودہ انگریزی زبان میں ایک مخصوص چمک کی بنا پر"براؤن یا لائٹ براؤن" کہا گیا جو "برما" کے علاقوں سے انگریزی زبان میں شامل ہوا۔ خاکی یا ہلکا بھورے رنگ کو عربی زبان میں "بنی(لون)" ، فارسی میں " قہوہ ای(قہوئی) " اور پنجابی زبان میں "گندمی" کے ناموں سے پُکاراجاتا ہے۔ بنی نوع انسان کو بھی "خاکی" یا خاکی پُتلا کہا جاتا ہے۔ تاہم بنیادی طور پر خاکی رنگ " مٹیالا" یا مٹی جیسا رنگ ہے ، جیسا رنگ " خاک" کا ہوتا ہے۔ فقیروں کا ایک فرقہ جو "خاکی شاہ" کا پیرو کار ہے ، اسے بھی "خاکی" کہا جاتا ہے۔ ایک انتہائی دلچسپ تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ " جنگِ آزادی ١٨٥۷ء" میں انگریزوں نے جن سپاہیوں کو خاکی وردی دی تھی ، اُن سپاہیوں کو بھی اُردو زبان میں " خاکی" کہا جاتا ہے اور اُس کپڑے کو بھی خاکی کہا گیا۔ اُردو ادب کے نامور مکتوب نگار مرزا غالب نے اپنے ایک خط میں دہلی پر انگریز فوج کے حملے کو کچھ ان الفاظ میں بیان کیا: "۔۔۔۔۔بھائی ایک خاکی دستہ اس شہر پر حملہ آور ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔اب حال یہ ہے کہ غلّہ گراں اور موت اَرزاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" مرزا غالب ہی کا ایک شعر ہے: مَقدُور ہو تو خاک سے پوچھوں کے اے لئیم ۔ تُو نے وہ گنجِ ہاے گراں مایہ کیا کیے؟ "خاکی ہونا " اُردو محاورہ ہے جس کا مفہوم " مِٹّی میں ملنا" یا " پیوندِ خاک" ہونا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے مجموعۂ کلام" بانگِ درا" کی نظم " طلوعِ اسلام " میں فرمایا: "عمل سے زندگی بنتی ہے ، جنّت بھی ،جہنم بھی ۔یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے ، نہ ناری ہے" اسی نظم کا ایک اور شعر ہے: "حقیقت ایک ہے ہر شے کی ، خاکی ہو کہ نُوری ہو۔ لہو خورشید کا ٹپکے،اگر ذرّے کا دِل چِیریں "

Poetry

Pinterest Share