Description
تفصیل
"کان" ہندی اسمِ مُذکر ہے یعنی سُننے کا عضو ، گوش ، سماعت یا سُننے کی قوّت۔
اُردو لُغت میں "کان" کا مطلب چارپائی کی ٹیڑھ ، بل یا کھچاؤ کا بھی ہے۔کپڑے کا ایک چھوٹا کونا جو کلف کی وجہ سے رہ جاتا ہے ،اُسے بھی "کان" کہا جاتا ہے۔مجازاً توجہ یا دھیان کو بھی کان کہتے ہیں۔عورتوں کے کان کا ایک زیور"کرن پھول" بھی کان کہلاتا ہے۔ستار ، تنبورے وغیرہ کی کھونٹیوں کو بھی "کان" کہا جاتا ہے۔
فارسی زبان میں "کان" اُس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے معدن ، دھات اور جواہرات نکلتے ہیں۔
اُردو محاورہ "کان آشنا" کا مطلب کسی بات کا سُنا ہوا ہونا ہے۔
جسمانی عضو"کان" کی جمع "کانوں" جبکہ فارسی میں اس کی جمع "کانوں" یا "کانیں"مستعمل ہے جہاں سے معدنیات نکالی جائیں۔
کان (ear) کو عموماً علمِ طب و حکمت میں عربی سے اَذن (جمع: اَذان) بھی کہا جاتا ہے یہ جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا ایک حسی عضو ہے جو کہ سُننے کا کام کرتا ہے یعنی یہ آواز کے لیے ایک وصولہ (receiver) کے طور پر کام کرتا ہے اور آواز کے ارتعاش کو دماغ تک پہنچانے کا ذریعہ بن کر سماعت کا احساس اُجاگر کرتا ہے۔ آواز کے لیے حسی عضو کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ، کان توازن اور وضع (posture) برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ علم تشریح میں کان کو سماعتی نظام کے اعضاء میں شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی سادہ الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کان ایک حسی عضو ہے جو آواز کھوجتا ہے اور یہ نہ صرف آواز کو سنتا ہے بلکہ جسم کو متوازن اور حرکتِ صحیح حالت میں رکھنے میں بھی نمایاں فعل(کام) سرانجام دیتا ہے۔ بہت سے جانوروں میں دو کان ہوتے ہیں۔ ایک کان سر کے ایک طرف اور دُوسرا سر کے دوسری طرف۔ اِس سے آواز کے مآخذ کا پتا لگانا آسان ہوجاتا ہے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔
کان صرف سُننے کا آلہ ہی نہیں بلکہ ہمارے جسم کے توازن کو قائم رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اگر کان سُننا چھوڑ دیں تو ہم بہرے ہوسکتے ہیں لیکن اگر جسم کا توازن ہی ختم ہوجائے تو ہم نہ چل سکتے ہیں، نہ بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی کھڑے ہوسکتے ہیں۔
سمعی یا سُننے کی میکانیت کے تین حصّے ہوتے ہیں جن میں بیرونی کان آواز کی لہروں کو وصول کرتا ہے۔ ہوا بھرا وسطی کان ان لہروں کو آگے منتقل کرتا ہے۔ جبکہ سیال بھرے اندرونی کان کے اندر سمعی اعضاء کے سِرے یعنی آخذے موجود ہوتے ہیں۔ ان حصّوں سے سمعی عصب Auditory Nerve اور اس کی گزرگاہوں کا تعلق دماغ کے سمعی مراکز سے مل جاتا ہے۔ دماغ آواز کو وصول کرکے بتاتا ہے کہ آواز کیسی ہے ؟ باریک ہے‘ تیز ہے یا چنگھاڑ ہے یا سُریلی ہے۔