Description
تفصیل
ہندی اسمِ موئنث کے لحاظ سے "بال" جوار، باجرا،یا گیہوں وغیرہ کے خوشے کو کہتے ہیں،اسے بالی بھی کہا جاتا ہے۔ہندی زبان میں "بال" بچہ یا بالک کو بھی کہا جاتا ہے،تاہم علم الابدان میں "بال" سے مُراد جسم پر پائے جانے والے رونگٹے ، روئیں یا مُو ، ہے جو سر ، مونچھوں اور ڈاڑھی وغیرہ کے مقامات پر کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
بال جِلد کے اندر ایک ننھے سے گڑھے سے نمودار ہوتا ہے جو بال کا جراب Hair folicle کہلاتا ہے۔ اس گڑھے کی تہہ میں ایک گومڑ(پھُولا ہوا حصہ) سیا ہوتا ہے جو خلیوں سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے۔ یہی خلیے بال کو بڑھاتے ہیں۔ بال کے خلیے زندہ نہیں ہوتے اس لیے بال کٹنے پر کوئی درد محسوس نہیں ہوتا۔
انسانی بال ایک تا دو سینٹی میٹر ماہانہ کی شرح سے بڑھتے ہیں۔ بال نہ کاٹیں تو ایک میٹر تک بڑھ کر رُک جاتے ہیں۔ لیکن تراشنے سے بالوں کے بڑھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ دنیا میں بالوں کی سب سے زیادہ لمبائی چار میٹر تک ریکارڈ کی گئی ہے۔
فروری 1994 ء کی تحقیق کے مطابق "گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ " نے انڈیا کی ایک خاتون کے بالوں کی لمبائی 4.17 میٹر شایع کی ہے۔اس خاتون کا تعلق انڈیا کے علاقہ Uijai سے تھا۔
بال ممالیہ جانوروں کی کھال پر اُگتے ہیں۔ وہ بال جو انسان کے علاوہ دوسرے ممالیہ جانوروں کے جسم پر اُگتے ہیں انھیں “فر“ کہا جاتا ہے، بھیڑ کے جسم پر انھیں گول بالوں کو اُون کہا جاتا ہے۔
کسی بھی جسم پر اگر بال موجود نہ ہوں تو اسے “گنجا پن“ کہا جاتا ہے۔ انسانوں اور چند دوسرے جانوروں میں ارتقاء کی وجہ سے بالوں کی بڑی مقدار اب جسم پر موجود نہیں ہوتی اور کچھ ممالیہ جانور جیسے ہاتھی وغیرہ کے جسم پر سے یہ بال مکمل طور پر غائب ہو چکے ہیں۔
کئی غیر ممالیہ جانور جیسے کئی کیڑے اور مکڑی وغیرہ کے اجسام پر بھی بال نما اجسام موجود ہوتے ہیں ان کو حیاتیاتی زبان میں اصل بال تو نہیں گردانا جاتا۔ انھیں Bristleکہا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی پودوں کی چھال پر بھی بال نما اجسام موجود ہوتے ہیں، یہ بھی اصلی بال نہیں ہوتے بلکہ انھیں Trichomes کہا جاتا ہے۔
کسی بھی زندہ جسم پر بالوں کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں، جیسے کہ:
یہ جلد کے خلیوں کو روشنی سے بچاتے ہیں اور اس طرح فضا میں موجود حرارت اور نقصان دہ شعاعوں سے جسم محفوظ رہتا ہے۔
یہ جلد کو ٹھنڈا ہونے سے بچاتے ہیں اور اس طرح جسم کی حرارت کو محفوظ رکھتے ہیں۔
کئی جانور جو کہ ایسے جنگلات میں رہتے ہیں جہاں بارشیں بہت زیادہ ہوں، وہاں جسم پر موجود بال بارش سے بچاؤ کا کام بھی دیتے ہیں۔
بالوں کی بنیاد میں پسینہ پیدا کرنے والے غدود ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے جسمانی درجۂ حرارت کو برابر رکھا جاتا ہے اور اضافی نمی کو جذب کیا جاسکتا ہے۔
کئی جانور بالوں کی مدد سے دوسرے شکاری جانوروں سے بچاؤ کا کام بھی لیتے ہیں۔
انسانی جسم میں بال سر پر بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ سر کے بالوں کی تعداد مختلف نسلوں میں کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ ایشیائی اور شمالی امریکہ کے باشندوں کے جسم پر بالوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔
انسان سر کے بالوں کے بارے نہایت دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ خود کو سنوارنے کے لیے مرد وخواتین میں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بالوں کو رنگنا، مختلف انداز سے ڈھالنا اور کئی طرح سے سنوارنے کا رواج رہا ہے۔ بعض مذاہب میں جسم کے بالوں کے کاٹنے پر پابندی بھی ہے۔ اور کئی دوسرے معاشرے جسمانی بالوں کو پسند نہیں کرتے۔
اُردو محاوروں میں "بال" سے متعلق کئی دلچسپ محاورے شامل ہیں جن میں:
بال آنا:شگاف پڑجانا، شیشے یا چینی کے برتن میں خط پڑنا، دراڑ پڑنا،خوشہ نکلنا یا بدن پر بال اُگنا
بال اُترنا: بال گرنا یا مونڈے جانا
بال بال بچنا: حادثے کی لپیٹ میں آتے آتے رہ جانا
بال بال جکڑنا(بندھنا): بہت بُری طرح پھنسنا
بال بال دُشمن ہونا : تمام زمانے کا دُشمن ہوجانا
بال بال موتی پرونا: خوب آراستہ و پیراستہ ہونا
بال بال گناہ گار ہونا:بہت زیادہ گنہگار ہونا
بال بنانا: چوٹی گوندھنا ،کنگھی کرنا ، خط بنانا،حجامت بنانا وغیرہ وغیرہ