Description
تفصیل
ہندی،اسم مُذکر ۔سانس لینےکا عضو ۔ وہ عضو جو پنکھے کی طرح سے(پھیلا ہوا) دل کے قریب ہوتا ہے(بحوالہ: فیروز اللغات، صفحہ"٣٤٣")
پھیپھڑے سینے کے جوف میں دل کے دونوں جانب واقع ہوتے ہیں۔ یہ شکل میں مخروطی ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ ہلکا سُرخ ہوتا ہے۔ یہ وزن میں ہلکے اور اسفنجی ہوتے ہیں۔ ان کا نوکدار حصّہ اوپر کی جانب ہنسلی کی ہڈی کے نیچے واقع ہوتا ہے اور ڈایا فرام کے اوپر رکھا ہوتا ہے۔ داہنا پھیپھڑا تین لوتھڑوں میں اور بایاں دو لوتھڑوں میں منقسم ہوتا ہے۔ پھیپھڑوں میں عروقِ خشنہ Brondicoles اور ہوا کی تھیلیوں اور کوٹھریوں کے علاوہ عروقِ شعریہ‘ طَف کی نالیاں اور اعصاب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ عروقِ شعریہ میں خون موجود ہوتا ہے۔
پھیپھڑوں کے باہر کی جانب ایک دہری جھلی غشاء الریہ Pleura لپٹی ہوتی ہے۔ یہ جِھلّی ایک قسم کی رطوبت تیار کرتی ہے جو پھیپھڑوں کو تر رکھتی ہے۔ جب ہم سانس لیتے ہیں تو ڈایا فرام سُکڑ جاتا ہے اس وقت پٹّھے پسلیوں کو باہر کی طرف کھینچتے ہیں جس کی وجہ سے پھیپھڑوں اور سینے کا حجم بڑھ جاتا ہے اور ہوا منہ کے ذریعے اندر داخل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب ہم سانس باہر نکالتے ہیں تو ڈایافرام اور پسلیوں کے پٹّھے ڈھیلے ہوجاتے ہیں اور سینے کا حجم چھوٹا ہوجاتا ہے۔ پھیپھڑے سُکڑ جاتے ہیں اور اندر کی ہوا باہر نکل جاتی ہے۔ حجابِ حاجز ڈایا فرام اور پسلیوں کے عضلات خودبخود بار بار یہ عمل دہراتے رہتے ہیں۔ اس طرح ہمارا عملِ تنفس جاری رہتا ہے۔
ہمارا دماغ حجابِ حاجز اور پسلیوں کے عضلات کی حرکت پر قابو رکھتا ہے اور غیر ارادی طور پر یہ کام جاری رہتا ہے۔ دماغ کے زیریں حصّے میں ایک مقام راس النخاغ ہوتا ہے جو عملِ تنفس پر قابو پاتا ہے۔ اگر اس کو کوئی صدمہ پہنچ جائے تو عملِ تنفس بند ہوجاتا ہے۔
سانس لینے کی شرح عمر کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ نومولود بچہ ایک منٹ میں تقریباً چالیس بار سانس لیتا ہے۔ ایک سال کا بچہ تقریباً چوبیس بار اور بالغ آدمی پندرہ سے اٹھارہ بار تک سانس لیتا ہے۔ سردی‘ گرمی‘ بیماری‘ ورزش وغیرہ بھی سانس کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
پھیپھڑے خون کی صفائی کا بنیادی کام سرانجام دیتے ہیں کیونکہ ہم سانس لے کر آکسیجن جذب کرتے ہیں اور سانس باہر نکال کر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔
درختوں کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے کیونکہ دن کے اوقات میں وہ اُلٹا فعل سرانجام دیتے ہیں یعنی کاربن ڈائی اوکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں،جبکہ رات میں درخت یا پودے کاربن ڈائی اوکسائیڈ خارج کرتے اور آکسیجن جذب کرتے ہیں۔
علم الابدان کے مطابق انسانی پھیپھڑے پوری زندگی میں تقریباً تین سو تا پانچ سو ملین ہوا اپنے اندر سموتے اور خارج کرتے ہیں۔بالغ آدمی میں ان کے عمر بھر پھیلاؤ کا کُل سطحی رقبہ ستّر مربع میٹر تک ہوتا ہے جو کسی "ٹینس کورٹ" کے رقبے کے برابر قرار دیا جاسکتا ہے یعنی پوری زندگی میں پھیپھڑوں کا پھیلاؤ ستّر مربع میٹر یا سات سو پچاس مربع فیٹ تک ہوتا ہے۔ہر پھیپھڑے کا وزن تقریباً ایک کیلوگرام کے برابر ہوتا ہے جو ہوا بھرجانے کے بعد دو اعشاریہ تین کیلو گرام تک ہوجاتا ہے۔
پھیپھڑے اپنے اندر داخل ہونے والی ہوا کا درجۂ حرارت 37 °C (99 °F) کردیتے ہیں جو انسانی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
اگر پھیپھڑوں کو درجۂ حرارت تبدیل ہوجائے تو انسان کو "دق" یا "سل" یعنی ٹی بی جیسی بیماری بھی لاحق ہوسکتی ہے۔