Shair

شعر

نوجوانی کھو کے یوں پیری میں غفلت بڑھ گئی
صبح کو آتی ہے جیسے نیند شب بیدار کو

(مصحفی)

رات آئی تو چراغوں نے لویں اکسا دیں
نیند ٹوٹی تو ستاروں نے لہو نذر کیا

(مصطفےٰ زیدی)

میری ہی تو آنکھوں میں غضب نیند بھری ہے
میری ہی جیبیں ہے یہ جو گھٹنے پہ دھری ہے

(مومن)

ہرنی سی ایک آنکھ کی مستی میں قید تھی
اِک عُمر جس کی کھوج میں پھرتا رہا‘ وہ نیند

(امجد اسلام امجد)

واللہ‘ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

(غالب)

جب سے آنکھیں لگی ہیں ہماری نیند نہیں آتی ہے رات
تکتے راہ رہے ہیں دن کو آنکھوں میں جاتی ہے رات

(میر)

First Previous
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10
Next Last
Page 1 of 16
Pinterest Share