نوجوانی کھو کے یوں پیری میں غفلت بڑھ گئی
صبح کو آتی ہے جیسے نیند شب بیدار کو
(مصحفی)
|
رات آئی تو چراغوں نے لویں اکسا دیں
نیند ٹوٹی تو ستاروں نے لہو نذر کیا
(مصطفےٰ زیدی)
|
میری ہی تو آنکھوں میں غضب نیند بھری ہے
میری ہی جیبیں ہے یہ جو گھٹنے پہ دھری ہے
(مومن)
|
ہرنی سی ایک آنکھ کی مستی میں قید تھی
اِک عُمر جس کی کھوج میں پھرتا رہا‘ وہ نیند
(امجد اسلام امجد)
|
واللہ‘ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب
(غالب)
|
جب سے آنکھیں لگی ہیں ہماری نیند نہیں آتی ہے رات
تکتے راہ رہے ہیں دن کو آنکھوں میں جاتی ہے رات
(میر)
|