پاس جب تک وہ رہے‘ درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح
(پروین شاکر)
|
پلکوں کو اس کی‘ اپنے دوپٹے سے پونچھ دوں
کل کے سفر میں آج کی گردِ سفر نہ جائے
(پروین شاکر)
|
پھول سو بھی جائیں تو روشنی نہیں بجھتی
سبز دُوب کی آنکھیں جاگتی ہیں رستوں پر
(پروین شاکر)
|
تو میرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات
جانے کیوں تیرے لئے دل کو دھڑکتا دیکھوں
(پروین شاکر)
|
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
(پروین شاکر)
|
رقص جن کا ہمیں ساحل سے بہا لایا تھا
وہ بھنور آنکھ تک آئے تو کنارے نکلے
(پروین شاکر)
|