Description
تفصیل
لغوی معنوں کے اعتبار سے ڈرامہ لکھنے والے کو ڈرامہ نگار کہتے ہیں۔ لیکن جب ہم ڈرامہ نگار کو بطور پیشہ دیکھتے ہیں تو وہاں ایک ایسے ڈرامہ نگار کا ذکر ہوتا ہے جو ڈرامہ اس لئے لکھ رہا ہو کہ اُس کی تحریر کتابی شکل میں فروخت کی جائے یا وہ ڈرامہ اسٹیج‘ ٹی وی یا سنیما کے پردے پر دکھایا جائے گا جس کی اجرت اس کو ملے گی۔
ڈرامہ نگار کے لئے اُس کی علمی قابلیت کے علاوہ چند دوسری خوبیوں کا اس کے اندر پایا جانا ازبس ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کا مشاہدہ بہت گہرا ہو‘ انسانی نفسیات کا عمیق مطالعہ ہو‘ جس پس منظر میں وہ اپنے ڈرامے کو لے کر چل رہا ہے اس معاشرے اور ماحول سے اچھی طرح واقف ہو‘ اس کے ساتھ ہی جن قاریوں یا ناظرین کے لئے یہ ڈرامہ تحریر کیا جارہا ہے اُن کی پسند و ناپسند اور اُن کے مزاج کا بھی اسے ادراک ہو۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایک ڈرامہ نگار اپنے پڑھنے اور دیکھنے والوں میں وہ ذوق اور دلچسپی پیدا کرسکتا ہے جسے وہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یعنی ڈرامہ نگار قاری اور ناظر کے ذوق کو وہ رخ دے سکتا ہے جسے وہ چاہتا ہے نہ کہ اپنی تحریروں میں وہ رنگ بھرے جو اس کا قاری یا ناظر چاہتا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈرامہ نگار اپنے ناظر اور قاری پر حاوی ہوتا ہے اور اسے اُس سمت میں باآسانی لے جاسکتا ہے جہاں وہ لے جانا چاہتا ہے بشرطیکہ ڈرامہ نگاری کے ان اصولوں کو احسن طریقے سے برتا گیا ہو جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے۔ یعنی انسانی نفسیات کا مطالعہ‘ معاشرتی تقاضے اور زبان و بیان کا انداز.......... . اگر لکھنے والا ان ملحوظات کے ساتھ لکھتا ہے اور پیش کرنے والا کرداروں کے انتخاب میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے ڈرامہ پیش کرتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ڈرامہ نگار اپنے ناظر و قاری کو اپنے ساتھ لے کر نہ چل سکے۔
ڈرامہ لکھنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ جو تحریر کررہا ہے اُسے صرف پڑھا جانا ہے‘ ریڈیو سے نشر ہونا ہے یا ٹیلی ویژن پر دکھایا جانا ہے۔ ان تینوں حالات میں ڈرامہ نگار جو زبان استعمال کرے گا اور جو پیش منظر اور پس منظر پیش کرے گا‘ وہ مختلف ہوں گے۔
اردو ڈرامے کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے۔ آغا حشر کاشمیری کو اردو کا پہلا ڈرامہ نگار کہا جاتا ہے ۔ اُن کے ڈرامے غالباً لکھے ہی اس لئے جاتے تھے کہ انہیں پیش کیا جائے اور چونکہ وہ خود بیک وقت ڈرامہ نگار‘ شاعر‘ اداکار اور ہدایت کار تھے بلکہ ڈرامہ کمپنی کے مالک تھے اس لئے بہت جلدی اور تیزی سے ان کی شہرت ہوگئی۔