URDU encyclopedia

اردو انسائیکلوپیڈیا

search by category

قسم کے ذریعہ تلاش کریں

search by Word

لفظ کے ذریعہ تلاش کریں

Professionalsپیشہ ور افراد

Social Worker فلاحی کارکن

English NameSocial Worker
Urdu Name اجتماعی کارگر ۔ عاملِ اجتماعی ۔ ترابطِ اجتماعی

Description

تفصیل

انسان بنیادی طور پر معاشرتی حیوان ہے جو تنہا نہیں رہ سکتا۔اسے اپنی خوشیاں ، غم ،دکھ، درد،حسرت،ناکامیاں اور کامرانیاں " شیئر " کرنے کے لیے ایک رفیق،مونس ،دم ساز اور ہمدم کی ضرورت پڑتی ہے جس سے وہ اپنا چِٹّھا بیان کرسکے۔پس ا سی بنیاد پر انسان نے آبادیاں اور کالونیاں بنا کر اجتماعیت کو فروغ دیتے ہوئے"معاشرہ" کی تشکیل کی اور یوں انسانی معاشرے نے جنم لیا اور بجائے انفرادی کیفیت کے اجتماعی کیفیات کا حسین سنگم ظہور پذیر ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے بھی جنّت میں کسی رفیق و دم ساز کی آرزو کی تو خالق باری نے اُنہی کی کوکھ سے بی بی حوّا کی تخلیق کی اور یوں انسان کی"ازلی تنہائی"کا تدارک ممکن ہوا۔ زمین پر آنے کے بعد آدم اور حوّا سے نسلِ انسانی، جوڑوں کی شکل میں بڑھی اور اُن جوڑوں میں فریقین سے نکاح بھی جائز ہوا،یعنی پہلے جوڑے کا لڑکا دوسرے جوڑے کی لڑکی سے نکاح کرسکتا تھا۔نسلِ انسانی کے ارتقاء کے ساتھ ہی ماں باپ،بہن بھائی،بیوی شوہر،خالہ خالو، چچا چچی،ماموں ممانی اور دیگر معاشرتی (دُنیَوی)رشتوں کا آغاز بھی ہوا۔ یوں تو ہر انسان دُکھ درد اور رنج و الم میں ایک دوسرے کے کام آتا ہے اور پڑوسی تو رشتہ داروں سے پہلے کام آتے ہیں لیکن پھر بھی انسانی معاشرے کی بقاء اور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے مراکز قائم کیے گئے جہاں "فلاحی مملکت" کے تصور کو اُجاگر کیا گیا۔اس فلسفہ کو ایک یونانی فلسفی "افلاطون" اپنی تصنیف" ری پبلک"(الجمہوریہ) میں بہت پہلے پیش کرچکا تھاکہ انسان ایک دوسرے کے کام آئے،خوشی اور غم میں شریک ہو تو یہ ایک کامیاب ریاست کا بھرپور تصور ہے۔ اسلام دینِ حیات و کائنات ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ، چنانچہ پاکستان کو ایک فلاحی مملکت کے سانچے میں ڈھالنا از بس ضروری تھا۔پاکستان میں فلاحی مملکت کا تصور وہی ہے جو مذہبِ اسلام میں امن و آشتی کا مظہر ہے۔ افراد کی اپنی مدد آپ کے تحت کے علاوہ فلاحی کاموں کو انجام دینے کے لیے باقاعدہ ادارے قائم کیے گئے جن میں ضرورت مند خواتین و حضرات کی ہر ممکن دل جُوئی کی گئی۔کہیں لڑکیوں کو کھانا پکانے اور سِینے پرونے کی بلا معاوضہ تعلیم دی گئی تو کہیں بیوائوں اور ضرورت مند خواتین میں سلائی مشینیں تقسیم کی گئیں ۔کہیں ضرورت مند طالب علموں کو ٹیوشنز دی گئیں تاکہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات خود پُورے کرسکیں اور کہیں پولٹری فام قائم کیے گئے۔ہر محلہ اور کالونی میں فلاحی تنظیمیں اور یونینیں قائم کی گئیں اور اُن تنظیموں سے وابستہ افراد کو فلاحی کارکن کہا جانے لگا۔ان افراد میں خواتین بھی شامل ہیں اور مَرد حضرات بھی ،نصب العین ان سب کا ایک ہی ہے کہ دُکھی انسانیت کی خدمت اور ہر طرح کے مسائل کا ممکنہ تدارک۔ ایک فلاحی کارکن کی ذمہ داری اس لحاظ سے زیادہ اہم ہے کہ اُس کاکام ایک "نقّاد" کا کام ہے یعنی جیسے ایک نقاد تحریری کھرے اور کھوٹے پن کا اندازہ لگاتا ہے ،اسی طرح ایک فلاحی کارکن اس بات کا یقین کرتا ہے کہ اپنی ضرورت بیان کرنے والا واقعی ضرورت مند ہے یا نہیں ۔وہ ایسے افراد کی مکمل"کیس ہسٹری" تیار کرتا ہے اور اُس کے بعد ضرورت مند افراد کی مدد کی جاتی ہے۔فلاحی کارکن گمبھیر مسائل کو اربابِ اختیار و اقتدار تک بھی پہنچاتے ہیں اور قومی اخبارات میں بھی شایع کرواتے ہیں۔ فلاحی کارکن کی کس قدر اہمیت ہوتی ہے اور اُس کا پیشہ کس قدر اہمیت و وقعت کا حامل ہے اس بات کا اندازہ پروفیسر ابوالخیرکشفی صاحب کے ایک مضمون" پہلا قدم شرط ہے۔۔۔" کو پڑھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ مثل مشہور ہر" اکیلا چَنا کیا بھاڑ جھونکے(پھوڑے) گا؟" ایک مشہور شعر ہے: حیات لے کے چلو،کائنات لے کے چلو ۔ چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو یا اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ایک فلاحی کارکُن تو سب ہی کی فلاح ،سب کی خیر چاہتا ہے۔

Poetry

Pinterest Share