کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یک سر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
(میر تقی میر)
|
گل و آئینہ کیا خورشد در کیا
جِدھر دیکھا تِدھر تیرا ہی رُو تھا
(میر تقی میر)
|
عجز کیا سو اس مفسد نے قدر ہماری یہ کچھ کی
تیوری چڑھائی غصّہ کیا جب ہم نے جھک کے سلام کیا
(میر تقی میر)
|
تاب کہاں ہے تجھ سے کہیئے لگ کے گلے سے سوجاؤ
مانو نہ مانو‘ بیٹھو نہ بیٹھو‘ کھڑے کھڑے ٹُک ہوجاؤ
(میر تقی میر)
|
سینہ کوبی سنگ سے دل خون ہونے میں رہی
حق بجانب تھا ہمارے سخت ماتم ہوگیا
(میر تقی میر)
|
شعر صاحب کا مناسب ہے ہماری اور سے
سامنے اُس کے بڑھے گریہ کوئی جا آشنا
(میر تقی میر)
|