Description
تفصیل
پاکستان میں جب پہلی مرتبہ ٹیلی فونک نظام متعارف کروایا گیا تو پہلے ڈائریکٹ ڈائلنگ کا کوئی تصور نہیں تھا۔چونگا ( ریسیور) اُٹھاتے ہی دوسری جانب سے ٹیلی فون آپریٹر کی آواز آتی کہ" فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟"فُون کرنے والا اپنا مطلوبہ نمبر یا جگہ کا نام بتا دیتا اور یوں رابطہ بحال ہوجاتا لیکن اس تمام گفتگو کو ٹیلی فُون آپریٹر بھی سُنتا رہتا۔خواتین اس پیشے سے بہت بعد میں وابستہ ہوئیں ، پہلے صرف مَرد (حضرات) ہی فُون آپریٹر ہوا کرتے تھے۔اُس دور کا ایک لطیفہ بھی بڑا مشہور ہوا جسے سیّد ضمیر جعفری نے اپنی کتاب میں تحریر کیا کہ ایک صاحب کی بیگم نے کسی دوسرے شہر میں اُنہیں فُون کیا کہ فوراً ایک ہزار رُپے بھیج دیجیے،سخت ضرورت ہے۔وہ صاحب نئے شہر میں دفتری ذمہ داری نبھانےگئے تھے۔سخت پریشان ہوئے اور بولے:"کیا کہا؟"
بیگم صاحبہ نے پھر کہا:"ایک ہزار رُپے کسی طرح بھیج دیجیے!"
صاحب پھر چیخے"کیا کہہ رہی ہو؟آواز نہیں آرہی ہے!"وہ پھر چلائیں۔
ٹیلی فُون آپریٹر یہ ساری گفتگو سُن رہا تھا،درمیان میں بولا"صاحب،صاف اور واضح آواز تو آرہی ہے!"
اُن صاحب نے ٹیلی فُون آپریٹر سےپوچھا:"کیا تمہیں آواز آرہی ہے؟"
وہ بولا:" جی ہاں ،بالکل صاف!"
وہ صاحب بولے:" تو پھر تم ایک ہزار رُپے دے دو!"
اس لطیفہ سے اُس کرب کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ جب فُون آپریٹر بھی گفتگو میں شریک ہوا کرتے تھے۔
آہستہ آہستہ زمانے نے ترقی کی اور ٹیلی فُون ایکسچینج قائم کی گئی۔خود کار کمپیوٹر نظام کے ذریعہ تمام ٹیلی فونوں کو ایک وسیع نیٹ ورک سے مُنسلک کردیا گیا اور یوں خود کار ڈائلنگ اور جِدّت کا دور شروع ہوا۔
رفتہ رفتہ سیلولر فُونز کمپنیوںنے بھی اپنے قدم جمائے اور یوں ٹیلی فُون آپریٹرز کی ضرورت کم ہوتی چلی گئی۔لیکن کچھ دفتروں میں باس وغیرہ کے ٹیلی فُون اٹینڈ کرنے کے لیے فُون سیکریٹریز کا تقرر کیا جاتا ہے جو متعلقہ آفیسر سے فُون کرنے والے کا رابطہ بحال کراتی ہیں یا اگر صاحب مصروف ہوں تو فُون کرنے والے کو بتا دیتی ہیں کہ صاحب میٹنگ میں ہیں۔
کچھ دفتروں یا کمپنیوں میں مرد آپریٹرز کا تقرر بھی کیا جاتا ہے۔
پہلے زمانے میں جگہ جگہ "پبلک ٹیلی فُون بُوتھ " ہوا کرتے تھے،وہاں آپریٹر ہی بات کروایا کرتے تھے لیکن اب نِت نئے جدید ترین موبائل فونوں نے ٹیلی فون اٹینڈینٹ کی اہمیت کو بڑی حد تک کم کردیا ہے تاہم اس پیشہ کی اہمیت سے اجتناب ممکن نہیں ہے۔