Description
تفصیل
ہندی اسم مُذکر " پَٹّھا" کی جمع، بمعنی بدن کے وہ ریشے جن کے ذریعہ جسمانی اعضاء سُکڑتے اور پھلتے ہیں۔
لُغوی معنوں میں " پَٹّھا"، "پَٹھّے" یا " پَٹھّوں" سے مُراد پہلوان کا شاگرد ، نوجوان، نوخیز،تنکا ، شاخ ، ٹہنی ، کتاب کے دونوں طرف کا موٹا کاغذ جو حفاظت کے لیے لگاتے ہیں،چَوڑی چوُڑی جو باریک چُوڑیوں کے درمیان پہنی جاتی ہے،اطلس یا ساٹن وغیرہ کی چوڑی گوٹ جو دوپٹّوں اور لُنگیوں وغیرہ پر لگائی جاتی ہے،گھاس کا پَتّا،کاگُل، مرد کے سر کے دونوں طرف کے بال جنہیں وہ کانوں یا گردن تک لٹکاتے ہیں۔
علم البدان کے مطابق انسانی جسم میں دو طرح کے عضلات یا پَٹھّے پائے جاتے ہیں :
(١) اردای پٹھے یا عضلات
(٢)غیر ارادی پٹھے یا عضلات
(١)ارادی عضلات:
انہیں دماغ قابو میں رکھتا ہے اور اعصاب (nerves) کے ذریعے انہیں کیمیائی اور برقی پیغامات پہنچا کر مطلوبہ کام کرواتا ہے اسی وجہ سے ان کو ارادی عضلات (voluntary) کہا جاتا ہے۔ عام طور پر ان کا خوردبینی مطالعہ کرنے پر گہری اور ہلکی دھاریاں نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے ان کو "دھاری دار عضلات" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بلا واسطہ یا بالواسطہ مضبوط سفید ریشوں کے ذریعے ہڈیوں کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور ان میں سُکڑنے اور پھیلنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے لہٰذا جب یہ اپنی اسی قوت کے تحت حرکت کرتے ہیں تو اپنے ساتھ ان ہڈیوں کو بھی متحرک کرتے ہیں جن کے ساتھ یہ رباط (ligament) کی مدد سے لگے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ جاندار کے جسم میں حرکت پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر یہ ہڈیوں پر جُڑنے کے بجاۓ کھال کے نیچے چپکے ہوۓ ہوں تو ان کی وجہ سے کھال میں حرکت پیدا ہوتی ہو مثلا چہرے کی جلد پر تاثرات اسی سبب کی وجہ سے بنتے ہیں۔
(٢) غیرارادی عضلات:
یہ براہ راست دماغ کے حکم پر کام نہیں کرتے اور اپنی حرکت میں خاصے خودمختار ہوتے ہیں اور ان کا کام خود بخود اور انسانی خواہش کے بغیر اور اس حصے کی ضروریات کے مطابق جہاں یہ موجود ہوں انجام پاتا ہے، اسی وجہ سے ان کو غیرارادی عضلات (involuntary) کہا جاتا ہے۔ ان کا خوردبینی مطالعہ کرنے سے ان پر گہری اور ہلکی دھاریاں نظر نہیں آتیں جس کی وجہ سے ان کو "غیردھاری دار عضلات" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عضلات سانس کی نالیوں، خون کی نالیوں، معدہ، دل اور جسم کے دیگر حصوں میں پائے جاتے ہیں۔
بظاہر تمام عضلات کا کام جوڑوں کے دو مقامات کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لئے سُکڑنا‘ ڈھیلا پڑنا اور اپنی لوچ برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ جسم میں تمام تر حرکت کے حامل عضلات ہوتے ہیں۔ نیند کے دوران بھی عضلات کی لوچ ایک حد تک برقرار رہتی ہے۔ صرف موت یا مخصوص قسم کے فالج کی صورت میں ہی عضلات مکمل طور پر ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔
عضلات لمبے لمبے باریک ریشوں کے گُچّھوں سے مل کر بنتے ہیں۔ عضلات کے ریشے غلاف میں ڈھکے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ عضلات یا پٹھوں کے خُردبینی جائزے میں آڑی، ترچھی، ہلکی اور گہری دھاریاں نظر آتی ہیں۔ انسان کی ایک معمولی سی حرکت میں کئی عضلات استعمال ہوتے ہیں۔ عضلات میں یہ رابطہ اعصاب کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ دماغ مختلف قسم کی ہدایات اعصاب کے ذریعے عضلات کو پہنچاتا ہے۔
دل کے عضلات‘ سانس لینے کے عضلات اور آنتوں کے عضلات ہمہ وقت کام کرتے رہتے ہیں۔ عضلے یا پَٹھے میں تقریباً پچھتر فیصدی پانی اور بیس فیصدی پروٹین پائے جاتے ہیں۔