بتا تو اے شب غم آج دل ہے کیوں بشاش
ضرور نالہ شبگیر بار یاب ہوا
(شاد عظیم آبادی)
|
دل نہیں‘ تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا‘ کروں کیا‘ کار فرما جل گیا
(غالب)
|
کبھی تو دل تمناؤں کے اس گرداب سے نکلے
ہنر بھی کچھ ہمارے دیدۂ بے خواب سے نکلے!
(امجد اسلام امجد)
|
وصل خاطر خواہ تو معلوم تھا میرے تئیں
آس دل کو لگ رہی تھی جب تلک تھا میںجدا
(میر)
|
مجھ سے جب آنکھ لڑی برسرپکار نہ تھے
لےگئے جب مرے دل کو تو دل آزار نہ تھے
(مومن)
|
ناز کرنے لگے ہم دل سے پری زادوں پر
حیف آتا ہے جہاں میں ستم ایجادوں پر
(کلیات اختر)
|