لذت زہر غم فرقت دل داراں سے
ہووے منھ میں جنہوں کے شہد و شکر مت پوچھو
(میر)
|
مجھ کو سواد خط نہیں اور عشق ہے دو حرف
جس کا نہ پیش ہے نہ زہر ہے نہ زیر ہے
(میرحسن)
|
ایک بھائی کو ہے فاقہ ایک کرتا زہر مار
اٹھ گئی دنیا کے پردے سے محبت آج کل
(جان صاحب)
|
دھوپ ہے اور زرد پھولوں کے شجر ہر راہ پر
اک ضیائے زہر سب سڑکوں کو پیلا کرگئی
(منیر نیازی)
|
کہو ہو دیکھ کر کیا زہر لب ہم ناتوانوں کو
ہماری جان میں طاقت نہیں باتیں اٹھانے کی
(میر)
|
نو روز ہور روزِ عید کی خوشیاں ملے یک چاند میں
مارو رقیباں کے دلاں میں زہر بیکاں عید کا
(قلی قطب شاہ)
|