ہر شخص اپنے وقت کا سقراط ہے یہاں
پیتا نہیں ہے زہر کا پیالہ مگر کوئی
(مرتضٰی شریف)
|
سبزانِ شہر اکثر درپے ہیں آبرو کے
اب زہر پاس اپنے ہم بھی منگا رکھیں گے
(میر تقی میر)
|
ہے زہر اس میں تو دو مونہے سانپ سے بھی قہر
نیفے میں تیرے ہے جو سجیلا ازاربند
(انشا)
|
برہا زہر پٹی ہوں مرنا ہوا ہے نیڑے
دلبر طبیب آپی اَمرتِ اَدَھر نہ بھیجا
(حسن شوقی)
|
جب وہاں چمکے افق میں زہر دامان سحاب
میری جانب سے وطن کو اس طرح کرنا خطاب
(مطلع انوار)
|
او زہر ڈنک نینو جو پیے گا نین سو دھاک
دیوانہ سیں آگ برہ تھے کباب تھا
(قلی قطب شاہ)
|