کسی پہ لطف و کرم کسی کے، کسی پہ ظلم و ستم کسی کے
کسے پڑی ہے میاں غرض اب جو کوئی کھولے بھرم کسی کا
(نظیر)
|
جتنا ظلم وہ دل ڈھاتا ہے
جو بد مسلک ہوجاتا ہے
(دھم پد)
|
ظلم ہے‘ قہر ہے‘ قیامت ہے
غُصے میں اُس کے زیر لب کی بات
(میر تقی میر)
|
سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ
ہم بیگنہ اُس کے ہیں گنہگار ہمیشہ
(میر تقی میر)
|
کثرت ظلم و ستم سے ہوئے عابد نہ ملول
وہ سمجھتے تھے اتر جائے گا چڑھتا پانی
(اعجاز نوح)
|
عہد میں تیرے ظلم کیا نہ ہوا
خیر گزری کہ تو خدا نہ ہوا
(گلکدہ عزیز)
|