جدھاں تھے درد کا پائی لذت تج عشق کی دولت
تدھاں تھے ڈھوسٹے جَل میں ، طباں اپنی طبیباں سب
(عبداللہ قطب شاہ)
|
کیا کوئی پوچھنےوالا بھی اب اپنا نہ رہا
درد دل رونے لگے یاس جو بیگانوں سے
(گنجینہ)
|
درد سے ہم اک ذرا سی اشک باری کر بڑے
اس پہ بھی لاکھوں گھڑے پانی کے بادل پر پڑے
(شوق قدوائی)
|
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
(امیر مینائی)
|
جو بھی علاج درد کرو، میں حاضرہوں، منظور مجھے
لیکن اک شب امجد جی، وہ چہرۂ تاباں، دیکھو تو!
(امجد اسلام امجد)
|
زخم کی خیر نہ مانگوں کہ بڑھے اور بڑھے
لذت درد نہ چاہوں کہ ترقی ہی کرے
(نقوش مانی)
|