Shair

شعر

آشفتگی نے نقش سویدا کی درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ درد تھا

(غالب)

آب زلال وصل سے اندوہ درد ہجر
ناپید گھل کے ہوتا ہے کیا مثل ناج آج

(انشا)

چارہ گر تدبیر درد عشق پیچھے سوچنا
خط رد تو پہلے بالائے خطر تقدیر کھینچ

(و اسوخت امیر)

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

(غالب)

برہا ڈسن کے درد تھیں بیاکل پڑے نت زرد ہو
بے کس ہونٹ جا بیل تے جیوں پات بپیلا جھڑ پڑے

(شاہی)

پاس جب تک وہ رہے‘ درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح

(پروین شاکر)

First Previous
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10
Next Last
Page 1 of 65
Pinterest Share