آشفتگی نے نقش سویدا کی درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ درد تھا
(غالب)
|
آب زلال وصل سے اندوہ درد ہجر
ناپید گھل کے ہوتا ہے کیا مثل ناج آج
(انشا)
|
چارہ گر تدبیر درد عشق پیچھے سوچنا
خط رد تو پہلے بالائے خطر تقدیر کھینچ
(و اسوخت امیر)
|
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
(غالب)
|
برہا ڈسن کے درد تھیں بیاکل پڑے نت زرد ہو
بے کس ہونٹ جا بیل تے جیوں پات بپیلا جھڑ پڑے
(شاہی)
|
پاس جب تک وہ رہے‘ درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح
(پروین شاکر)
|