دپٹہ سہاوے جیو سہماے
ہونٹ سلونیں من لبھائے
(نو سرہار)
|
ہم نے ساقی کے کہیں ہونٹ جو ٹک چوس لیے
کوش ہو سب اہل خرابات کے پا بوس کیسے
(انشا)
|
وہ عجیب پھول سے لفظ تھے، ترے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
مرے دشتِ خواب میں دور تک، کوئی باغ جیے لگا گئے
(امجد اسلام امجد)
|
طلب جو ہو بھی تو ہم ہونٹ بند رکھتے ہیں
کہ ہم انا کا عَلم سربلند رکھتے ہیں
(جمشید مسرور)
|
کس کے آنسو چھپے ہیں پھولوں میں
چومتا ہوں تو ہونٹ جلتے ہیں
(بشیر بدر)
|
دہن کو دیکھ ترے ہونٹ چاٹتے رہ گئے
پھرا نہ قند سے منہ چاشنی چشیدوں کا
(انتخاب)
|