Shair

شعر

نگوڑی چاہت کو کیوں سمیٹا عبث کی جھک جھوری جھیلنے کو
دو گانا پڑ جائے پٹکی ایسی تمہارے اٹھکیل کھیلنے کو

(انشا)

چاہت کی گرفتار بٹیریں، لوے، تیتر
کبکوں کے تدرووں کے بھی چاہت میں بندھے پر

(نظیر)

کھنجن میں گلنگوں میں بھی چاہت کی مچی جنگ
دیکھا جو طیوروں نے اسے حسن میں خوش رنگ

(نظیر اکبر آبادی)

جو فکر وصل ہوتی ہے چاہت میں جا بہ جا
اُس بیقرار نے بھی کیا سب وہ ٹھک ٹھکا

(نظیر)

آنکھ چاہت کی ظفر کوئی بھلا چھپتی ہے
اس سے شرماتے تھے ہم‘ ہم سے وہ شرماتا تھا

(بہار شاہ ظفر)

کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں
کہ جو اہلِ محبت ک سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو‘ کہ جیسے ہاتھ میں پارا
کہ جیسے شام کا تارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گُماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے اُلفت کا!
یہ عینِ وصل میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے
محبت کے مُسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے ‘ وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے‘
’’یہ سچ ہے نا…!
ہماری زندگی اِک دوسرے کے نام لکھی تھی!
دُھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دُور پھیلا ہے
اِسی کا نام چاہت ہے!
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے!!‘‘
محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے!

(امجد اسلام امجد)

First Previous
1 2 3 4
Next Last
Page 1 of 4
Pinterest Share