چاہت بتوں کی ہے کہ خدائی کا روگ ہے
آزاد دیر عشق کے آزار سے ہوا
(رشک)
|
کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں
کہ جو اہلِ محبت ک سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو‘ کہ جیسے ہاتھ میں پارا
کہ جیسے شام کا تارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گُماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے اُلفت کا!
یہ عینِ وصل میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے
محبت کے مُسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے ‘ وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے‘
’’یہ سچ ہے نا…!
ہماری زندگی اِک دوسرے کے نام لکھی تھی!
دُھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دُور پھیلا ہے
اِسی کا نام چاہت ہے!
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے!!‘‘
محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے!
(امجد اسلام امجد)
|
کسِ نے چاہت میں نہیں دکھ پائے
پیار کرکے کِسے ایدا نہ ہوئی
(الماس ِ درخشاں)
|
نگوڑی چاہت کو کیوں سمیٹا عبث کی جھک جھوری جھیلنے کو
دو گانا پڑ جائے پٹکی ایسی تمہارے اٹھکیل کھیلنے کو
(انشا)
|
تم سے راسخ اٹھ سکیں گے صدمے چاہت کے کہاں
ڈوبتا ہے جی ہمارا نام سن کر چاہ کا
(راسخ)
|
تری چاہت کے سناٹے سے ڈر کر
ہجومِ زندگی میں کھو گئے ہم
(شہرت بخاری)
|