دور رفتہ کا مگر سود ا ہمارے سر میں ہے
بادہ حب وطن چھلکے ہوئے ساغر میں ہے
(مطلع انوار)
|
آبس کے رنج سے ہوے غیروں کے دل پہ بار
غربت میں خاک اڑائی لگائی وطن میں آگ
(حبیب)
|
آستیں تھام کے دولھا سے یہ کہتی تھی دلہن
اب جیے کس کے سہارے پہ یہ آوارہ وطن
(پیارے صاحب رشید)
|
آنکھیں جو دم نزع ہوئیں بند کھلے کان
آواز سنائی پڑی یاران وطن کی
(رشک)
|
وطن نو پہ مسلط ہیں یہ افراد ایسے
مصرع تازہ کی ہو جیسے کہ پامال گرہ
(ضمیر خامہ)
|
کیا پھرے وہ وطن آوارہ گیا اب سو ہی
دل گم کر دہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو
(میر)
|