مایوسِ وصل اُس کے کیا سادہ مُرد ماں ہیں
گُزرے ہے میر اُن کو امیدوار ہر شب
(میر تقی میر)
|
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
(اسلم کولسری)
|
پردیس میں کیونکر انہیں دشمن سے اماں ہو
جن بچوں کے سر پر نہ تو باہا ہو نہ ماں ہو
(انیس)
|
ماں کہتی تھی دولھن کی یہ رو رو کے ہر اک دم
بیٹی کے رنڈاپے سے بھی ہے مجکو بڑا غم
(سودا)
|
خان والا مصدرِ لطف و کرم عاشق حسیں
صورتِ تصویر والا دود ماں ہوجائیگا
(سید حامد علی)
|
بیٹا ہو سرخرو تو ہو ماں کینہ جو سفید
دنیا کا ہوگیا ہے یہ کیسا لہو سفید
(شاد لکھنوی)
|