Shair

شعر

مایوسِ وصل اُس کے کیا سادہ مُرد ماں ہیں
گُزرے ہے میر اُن کو امیدوار ہر شب

(میر تقی میر)

شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

(اسلم ‌کولسری)

پردیس میں کیونکر انہیں دشمن سے اماں ہو
جن بچوں کے سر پر نہ تو باہا ہو نہ ماں ہو

(انیس)

ماں کہتی تھی دولھن کی یہ رو رو کے ہر اک دم
بیٹی کے رنڈاپے سے بھی ہے مجکو بڑا غم

(سودا)

خان والا مصدرِ لطف و کرم عاشق حسیں
صورتِ تصویر والا دود ماں ہوجائیگا

(سید حامد علی)

بیٹا ہو سرخرو تو ہو ماں کینہ جو سفید
دنیا کا ہوگیا ہے یہ کیسا لہو سفید

(شاد لکھنوی)

First Previous
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10
Next Last
Page 1 of 14
Pinterest Share