اے گردشِ حیات کبھی تو دکھا وہ نیند
جس میں سب وصال کا نشہ ہو، لا وہ نیند
(امجداسلام امجد)
|
دانہ پانی اس کو نہ بھائے
رین بسیرے نیند نہ آئے
(سودا)
|
تصور میں کسی کے داغ نیند آتی نہیں مجھ کو
عجب بیدار اپنا طالعِ فیروز رہتا ہے
(گلزارِ داغ)
|
تو سو میرے بالے تو سو میرے بھولے
جب تک بالی ہے نیند
(محمدی بیگم)
|
جب سے آنکھیں لگی ہیں ہماری نیند نہیں آتی ہے رات
تکتے راہ رہے ہیں دن کو آنکھوں میں جاتی ہے رات
(میر)
|
مری اب آنکھیں نہیں کُھلتیں ضعف سے ہمدم
نہ کہ کو نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا
(میر تقی میر)
|