Description
تفصیل
رزمیہ شاعری قصیدے ہی کی ایک شکل ہے۔اس میں کسی شخص کی طاقت،برتری اور شان و شوکت کو بیان کیا جاتا ہے۔
قدیم دور میں جب انسان غاروں میں رہا کرتا تو مَرد شکار پر چلے جاتے اور عورتوں اپنے مردوں کی تعریفیں،ان کے شکار کے قصّے اور ان کی بہادری کی داستانیں نظم کرتیں ،یہی رزمیہ کہلایا اور رزمیہ کی بنیاد اسی "پتھر کے دور" میں پڑی۔
پھر یونان اور مصر میں اسے فروغ حاصل ہوا اور وِرجِل نے رزمیہ شاعری کو بے پناہ فروغ دیا۔قبل مسیح کے دور کا یہ شاعر زندگی کے ہر موضوع کو رزمیہ انداز میں پیش کرگیا۔وہ چاہے حمد ہو یا کسی کا قصیدہ،ورجل نے تمام واقعات کو رزمیہ انداز میں پیش کیا۔
برصغیر میں رزمیہ شاعری کی بہترین مثال "قصیدہ" ، "نعت" ۔ "مرثیہ" ہے جس میں شاعر متعلقہ شخصیات کا تعارف پیش کرتا ہے اور ان کے کارہائے نمایاں بیان کرتا ہے۔عرب میں "اَل فراہدی" نامی شاعر اور اس کے شاگرد"اَل اخفاش" نے رزمیہ شاعری کو فروغ دیا۔
میر ، غالب، سودا ،میر حسن ، میر انیس،میرزا دبیر،ذوق،نساخ و دیگر شعراء کرام رزمیہ شاعری کے بنیادی ستون تسلیم کیے جاتے ہیں۔
اکثر رزمیہ نظموں سے مُراد "جنگی" نظمیں لی جاتی ہیں لیکن رزمیہ شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔