Description
تفصیل
اُردو شاعری میں ایسی نظم جس میں کسی حادثے یا سانحہ کا تذکرہ ہو ، مرثیہ کہلاتی ہے ،جیسے میر تقی میر اور مرزا غالب نے دہلی کے اُجڑنے پر کئی مرثیے کہے۔الطاف حسین حالی نے غالب کی وفات پر مرثیہ کہا۔علامہ اقبال نے اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کی رحلت پر مرثیہ کہا۔خود غالب نے کئی مرثیے کہے۔
میر کی غزل کا ایک شعر ہے:
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو۔شہر دلّی میں ہے سب پاس
نشانی اس کی
یہ شہر دلّی کا مرثیہ ہے۔جسے میر تقی میر جیسے کہنہ مشق شاعر نے رقم کیا۔
مرثیہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مادہ’’رثٰی‘‘ ہے جس کے معنی ہیں رونا اور محاسن شمار کرنا۔ اس مناسبت سے مرثیہ سے مراد وہ اشعار ہیں جن میں میت کے عاسن بیان کیے جائیں۔ اس لفظ کی جمع مراثی ہے۔
مرثیہ نگاری کا رواج عرب میں بھی تھا لیکن وہاں اس کو واقعات کربلا کے لیے مخصوص نہیں کیا گیا تھا۔ عربی زبان کے سات مرثیے شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں اور المراثی البع کے نام سے مشہور ہیں۔
تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں فارسی شاعری نے پَر پرواز نکالے اور سامانی و غزنوی درباروں سے نکل کر یہ لے ہر طرف پھیل گئی۔ شعراء نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور صنفِ مرثیہ بھی ان کی توجہ کا مرکز بنی۔ ابتداءً بعض المناک واقعات پر مرثیے لکھے گئے مثلاً ہلاکو کے ہاتھوں بغداد تباہ ہوا اور خلافت کے خاتمہ سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی ختم ہو گئی تو سعدی نے اپنے جذباتِ غم و الم کا اظہار ایک پُر درد مرثیہ کے ذریعہ کیا۔
لیکن فارسی زبان میں بہت جلد اس صنفِ شاعری کو واقعاتِ کربلا کے لئے مخصوص کر لیا گیا اور مرثیہ سے مراد حضرت امام حسین اور اہل بیت اطہار کی تکالیف لی جانے لگی۔ اس زبان میں محتشم کاشی اور مقبل کے مرثیوں نے بڑی مقبولیت پائی۔
دکن کی دو سلطنتوں بیجا پور اور گولکنڈہ کے فرمانروا شیعان علی تھے۔ لہٰذا مرثیے نے وہاں بہت مقبولیت حاصل کر لی۔ وہاں کے حکمرانوں میں محمد علی قطب شاہ‘ عبداللہ قطب شاہ اور ابو الحسن تانا شاہ اردو کے بلند پایہ شاعر تھے انہوں نے مرثیے کی صنف کو فروغ دیا۔
حکمرانوں نے علاہ دیگر شعراء نے بھی مرثیے اور نوحے لکھے جن میں ملاوجہی کاظم‘ شاہی اور احمد وغیرہ کو بڑی اہمیت حاصل رہی۔
مرثیہ کو سب سے زیادہ ترقی لکھنئو میں ہوئی وہاں میر ظفر حسین ضمیر اور سید مستحسن خلیق کے نام نمایاں ہیں۔
ضمیر کے وقت سے مرثیہ کے درج ذیل اصول مقرر ہوئے۔
(۱) چہرہ ‘ (۲) ماجرا ‘ (۳) سراپا ‘ (۴) رخصت ‘ (۵) آمد ‘ (۶) ‘ خبر ‘ (۷) جنگ ‘ (۸) شہادت ‘ (۹) بین۔
ضمیر اور خلیق کے بعد مرثیہ کے آسمان پر میرانیس اور مرزا دبیر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے انہوں نے اس صنف کو اتنی ترقی دی کہ اب اس سے آگے لے جانا ممکن نہیں ہے۔
میرانیس نے مرثیے کو مخمس اور مسدس کی شکل میں لکھنے کا رواج ڈالا۔