Description
تفصیل
مسلمانوں کا ایک فرقہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا قائل ہے اور انھیں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین تسلیم کرتا ہے۔شیعہ پہلے تین خلفاء راشدین کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔اُن کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری حج کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانشینوں کو’’ امام‘‘ کہتے ہیں۔چوتھے امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک’’ شیعانِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘ متفق رہے کیونکہ ان پر شجرہ کی تکمیل ہوچکی تھی ، لیکن ان کی وفات پر شیعوں کے دو گروہ ہوگئے جنہوں نے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ’’ محمد باقر‘‘ کو امام مانا اور وہ ’’ امامی‘‘ کہلائے اور جنہوں نے ان کے دوسرے بیٹے ’’ زید‘‘ کی تقلید کی ، وہ ’’ زیدی‘‘ کہلائے لیکن اکثریت’’ امامیوں‘‘ کی تھی۔
چھٹے امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر امامیوں کے بھی دو گروہ ہوگئے۔جس گروہ نے ان کے بیٹے اسماعیل کو (جو والد کی حیات میں ہی وفات پاگئے تھے ) امام مانا،وہ طبقہ ’’اسماعیلی‘‘ کہلایا مگر جنہوں نے حضرت موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام تسلیم کیا(یہ اکثریت میں تھے) ، وہ ’’اثنائے عشری‘‘ کہلائے کیونکہ یہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں ۔آخری امام حضرت مہدی علیہ السلام تھے جو شیعہ عقائد کے مطابق بچپن ہی میں ایک غار میں پوشیدہ ہو گئے تھے اور قیامت کے قریب ظہور پذیر ہوں گے۔
شیعوں کو عباسی دورِ حکومت میں کافی فروغ حاصل ہوا ،بالخصوص ایران میں۔خصوصاً جب دسویں صدی عیسوی میں ’’بوید احمد معز الدولہ‘‘ خلافتِ بغداد پر حاوی ہوا تو شیعوں کا اثر بہت زیادہ بڑھ گیا۔قرونِ وسطیٰ میں ایران سے اُمرأ کے جو خاندان قسمت آزمائی کی غرض سے ہندُستان آئے وہ زیادہ تر شیعہ تھے(بحوالہ : ’’ تاریخِ پاک وہند از جادو ناتھ سرکار‘‘ ) ، انھوں نے دکن اور جونپور میں ریاستیں قائم کیں۔بنگال اور اودھ کی نوابیاں بھی شیعوں ہی کی تھیں۔شیعوں کی مجموعی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔تاہم ان کی اکثریت فقط ایران میں ہے(بحوالہ : اُردو انسائکلو پیڈیا از فیروز سنز لمیٹڈ ، اِڈیشن : جنوری ۱۹۶۲ء ، مطبوعہ : لاہور )
شیعوں میں ’’ رافضی‘‘ طبقہ ، الاعشری کے قول کے مطابق سب سے پہلے وہ لوگ کہلائے جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا ۔بعض لوگوں کے نزدیک عبد اللہ بن سباء کے ساتھی سب سے پہلے رافضی کہلائے لیکن بعد ازاں مخالفین شیعوں کو ’’ رافضی‘‘ کے ناخوشگوار لقب سے پکارنے لگے (بحوالہ : تاریخِ اسلام از طبری ) ۔ طبری نے مزید لکھا ہے کہ یہ لقب کوفہ کے زیدیوں کو ملا کیونکہ انھوں نے زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھوڑ دیا تھا ،اسی لیے ’’ رافضی‘‘کے لُغوی معنی ہیں ،چھوڑنے والا ، ترک کرنے والا۔
اس کے علاوہ ’’ اثنا عشری‘‘ ، لغوی معنی ’’ بارہ والا‘‘ ، شیعوں کا وہ فرقہ ہے جو بارہ اماموں حضرت علی علیہ السلام، حضرت حسن علیہ السلام، حضرت حسین علیہ السلام ،حضرت علی زین العابدین سجاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت امام علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت امام محمد تقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت امام علی نقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت امام حسن عسکری ذکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومانتا ہے۔ان کے مقابلے میں دوسرا شیعی فرقہ ’’اسماعیلیہ‘‘ ہے جو صرف پہلے چھ اماموں کو مانتا ہے۔بعض فرقوں میں امامت کے بارے میں اختلاف رہا لیکن جب ایران میں’’ صفوی خاندان‘‘ برسرِ اقتدار آیا تو چونکہ یہ خاندان حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے تھا اس لیے اس نے’’ اثنا عشری‘‘ عقیدے کو سلطنت کا عام مذہب قرار دے دیا ۔شاہ اسماعیل صفوی نے احکامات جاری کردیے کہ اماموں کے نا م خطبے میں پڑھے جائیں اور اذان میں ’’ علی ولی اللہ‘‘ کا اضافہ کردیا جائے( مزید دیکھیے: شیعہ ، اسماعیلی، رافضی)