Description
تفصیل
مختلف القوافی ابیات کی طویل نظم جس میں تاریخی واقعات یا کوئی قصہ یا حکایت دلچسپ اور نتیجہ خیز طریقہ سے بیان کیے جائیں۔ مثنوی" مثنٰے" سے منسوب ہے اور مثنٰے کے معنی ہیں دو دو لغوی معنی‘ گویا دو جزوالی چیز کو مثنوی کہتے ہیں۔ اصطلاحاً مثنوی ان اشعار کو کہا جاتا ہے جن میں دو مصرعے باہم مقفٰی ہوں یعنی قافیہ کی ترتیب یہ ہوتی ہے۔
الف ۔ الف
ب ۔ ب
ج ۔ ج
مثنوی میں تعدادِ اشعار کی کوئی حد مقرر نہیں۔ پندرہ بیس اشعار سے لے کر ساٹھ ساٹھ ہزار اشعار مثنوی میں کہے گئے ہیں۔ البتہ مثنوی میں ضروری ہے کہ سب سے پہلے حمد لکھی جائے اس کے بعد اپنے اصل مدعا لکھنے کے لئے ایک تمہید قائم کی جائے۔ مثنوی کے اوزان مقرر ہیں یہ وزن میں سات ہیں۔
مثنوی اردو کی تمام اصنافِ شاعر میں سب سے زیادہ مفید اور کارآمد صنف اس میں غزل و قصیدہ کے خلاف قافیہ کی قیود بہت نرم ہیں۔ لہٰذا شاعر کو مسلسل خیالات و واقعات خوبی کے ساتھ نظم کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔
اردو میں کم و بیش ہر شاعر نے چھوٹی بڑی مثنویاں لکھی ہیں۔ مگر
میر حسن دہلوی کی مثنوی سحر البیان اور پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی کی مثنوی گلزارِ نسیم بہت زیادہ مشہور اور مقبول مثنویاں ہیں۔ مثال کے طور پر حفیظ جالندھری نے " شاہ نامۂ اسلام " میں بحر ہزج مثمن سالم میں لکھی تھی جس کا وزن "مفاعی لَن مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن۔دوبار" تھا۔
اُس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
مبارک جمعہ کا دن سترہویں ماہِ رمضاں کی
شہادت گاہ میں فوج آہی پہنچی اہلِ ایماں کی
عجب انداز سے آئے خدا کے چاہنے والے
زبانیں خشک ،پوشاکیں دریدہ،پائوں میں چھالے
یہ اس قربان گہ میں آج پیدل چل کے آئے تھے
نہا کر اوس میں اور دھوپ میں جل جل کر آئے تھے
اس نظم کی خوبی میں کلام نہیں مگر فنی اعتبار سے اسے مثنوی نہیں کہا جاسکتا،اس لیے کہ اس کا وزن "مثنوی" کا وزن نہیں ہے۔