URDU encyclopedia

اردو انسائیکلوپیڈیا

search by category

قسم کے ذریعہ تلاش کریں

search by Word

لفظ کے ذریعہ تلاش کریں

Professionalsپیشہ ور افراد

Archeologist ماہرین آثارِ قدیمہ

English NameArcheologist
Urdu Name باستان‌ شناس‌ ۔عالم الآثارِ کُہَن ۔ الآ ثاري

Description

تفصیل

ماہرِ آثارِ قدیمہ اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس مختلف علوم کا خاصا ذخیرہ ہوتا ہے جن میں تاریخ‘ جغرافیہ‘ آرٹ‘ لسانیات‘ طبیعات اور کیمیا وغیرہ کے علوم شامل ہیں۔ ظاہر ہے کوئی فردِ واحد ان تمام علوم میں ماہر تو نہیں ہوسکتا مگر ان تمام علوم کی معقول حد تک معلومات ایک ماہر آثار قدیمہ کے لئے ضروری ہیں۔ ہم سے پہلے جو قومیں گزری ہیں ان کے معاشرتی اور سماجی باقیات کا مطالعہ آثار قدیمہ کی بنیاد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پتھر کے دور میں بننے والےہتھیاروںسے آثار قدیمہ کے مطالعہ کی بنیاد پڑتی ہے جس کی عمر تقریباً 40 سال لاکھ کے قریب ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے کام کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے انہیں اپنے کام کا مقصد متعین کرنا پڑے گا اور اسی حوالے سے پھر انہیں اُس جگہ کا انتخاب کرنا پڑے گا اس کے بعد اس منتخب جگہ کا سروے کرنا پڑے گا۔ دوسرے نمبر پر جو جگہ انہوں نے منتخب کی ہے اور اس کا سروے کیا ہے،وہاں کی کُھدائی کرنا پڑے گی۔ آخری مرحلہ اس کھدائی سے دریافت ہونے والی اشیاء کو جمع کرکے اُن کا مطالعہ کرنا پڑے گا اور یوں وہ اپنے مقصد کے قریب تر پہنچ سکیں گے۔ واضح رہے کہ جگہ کے انتخاب کے بعد سروے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جو تین طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ پہلا طریقہ سطحی مطالعہ (surface survey ) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی سطح کو دیکھ کر اندازہ لگایا جائے ۔ دوسرا طریقہ فضائی مطالعہ (Aerial Survey) ہے جس میں ہیلی کاپٹر یا ہوائی جہاز کے ذریعے بڑے بڑے حساس کیمروں سے مختلف اوقات میں متعلقہ علاقہ کی تصاویر لی جاتی ہیں اور پھر اُن تصویروں سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس علاقے میں وہ کون سی جگہ ہوسکتی ہے جہاں سے کُھدائی کا کام شروع کیا جائے۔ تیسرا طریقہ (Metal Detector Survey) ہے۔ اس طریقۂ کار میں کچھ ایسے آلات استعمال کئے جاتے ہیں جو اس بات کی نشان دہی کردیتے ہیں کہ زیرِ زمین کتنی گہرائی میں اور کِن سَمتوں میں کھدائی کی ضرورت ہے۔ سروے کے بعد جو اہم کام شروع کیا جاتا ہے وہ کُھدائی کا کام ہے جس کے لئے ماہرین کو نہایت محتاط طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے بالخصوص جب مدفون اشیاء کا اندازہ ہوجائے۔ اس کے بعد مختلف نازک اور حساس اوزاروں سے بلکہ بعض اوقات مخصوص بُرشوں سے زمین کی سطح کو آہستہ آہستہ اس قابل بنایا جاتا ہےکہ ماہرین اُن اشیاء تک پہنچ جائیں جن کے ملنے کا قوی امکان ہے اور یوں ماہرینِ آثارِ قدیمہ تاریخ کے گمشدہ اوراق کو تلاش کرکے دنیا کے سامنے پیش کردیتے ہیں۔ اس کی ایک بہترین مثال برطانوی افسر "سر جان مارشل" کی ہے ،جنہوں نے ١٩٣٣ء کے لگ بھگ اپنی ٹیم کے ساتھ صوبہ سندھ(پاکستان) میں لاڑکانہ سے نزدیک "موئن جو ڈرو" کی پانچ ہزار سال قدیم تہذیب دریافت کی۔

Poetry

Pinterest Share