Description
تفصیل
گُھڑ دوڑ میں گھوڑے دوڑانے والے اُجرتی کھلاڑی "جوکی" کہلاتے ہیں۔اسی طرح اونٹوں کی دوڑ میں حصہ لینے والے بھی جوکی ہی کہلاتے ہیں۔
لفظِ جوکی مختلف معانی میں استعمال ہوتا رہا ہے ، کبھی گھوڑوں کی خرید و فروخت کرنے والوں کے معنوں میں تو کبھی کوچوان‘ سیاح اور مغنّی وغیرہ کے معنوں میں ۔1617ء میں یہ لفظ گھوڑا دوڑانے والوں کے لیے مُختص ہو گیا۔ جوکی عموماً نوجوان‘ ہلکے وزن کے اور ساڑھے پانچ فٹ قد کے ہوتے ہیں۔ اس کا خیال رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ انہیں گھوڑے پر سواری کرنا ہے۔ جس کے لیے جوکی کے وزن کی حد مقرر شدہ ہے۔جس کا فیصلہ ریس کے منتظمین کرتے ہیں مثلاً ڈربی ریس میں جوکی کے وزن کی حد126پاؤنڈ یا57کلو گرام(مع کاٹھی) مقرر ہے۔اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ ریس کے گھوڑے کے دوڑنے کی اوسط رفتار40میل یا 64کلو میٹرفی گھنٹہ ہوتی ہے۔ عموماً جوکی ملازمت نہیں کرتے بلکہ ریس کے منتظمین سے اُجرت طے کر لیتے ہیں۔انہیں تربیت دینے کے ادارے قائم ہیں جہاں انہیں دوران تربیت کم از کم 20رکاوٹوں پر مشتمل دوڑ کی مشق کرائی جاتی ہے جس کے بعد انہیں سند اور لائسنس دیا جاتا ہے۔یہ رنگین لباس پہنتے ہیں۔
اس پیشے میں داخل ہونے والے جوکیوں کے زخمی ہونے کی اوسط50سے60فیصد ہے۔اپنی پیشہ وارانہ ضروریات کے تحت انہیں اپنی خوراک کا خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ جہاں ایک طرف انہیں یہ خیال رکھنا ہوتا ہے کہ ان کا وزن بڑھنے نہ پائے وہیں دوسری طرف انہیں اپنی توانائی برقرار رکھنے کے لیے چوکس رہنا پڑتا ہے۔
بہت عرصے تک یہ پیشہ خواتین کے لیے ممنوع رہا۔ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کی پہلی خاتون جوکی "ڈبلیو اسمتھ" تھی ، جس نے "بِل اسمتھ" کے نام سے19ویں صدی کی پانچویں دہائی میں گھوڑوں کی ریس میں شرکت کی لیکن اس کے عورت ہونے کے راز سے صرف اسی وقت پردہ اٹھا جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔60کی دہائی میں یہ پابندی ختم کر دی گئی اور اب عورتیں بھی مردوں ہی کی طرح جوکی کا پیشہ اختیار کر سکتی ہیں۔
جولائی2005ء میں دوہا میں اونٹوں کی دوڑ میں بچّوں کے استعمال پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج پر پابندی لگا دی گئی ۔اس کے بعد بچّوں کی جگہ روبوٹ استعمال کیے جاتے ہیں جنہیں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔