Description
تفصیل
پولٹری کا کاربار ان دنوں پاکستان میں عروج پر ہے اور یہ دیکھے بِنا کہ مُرغیوں کی صحت کیسی ہے ، وہ کس نوعیت کی ہیں،صحت مند ہیں یا بیمار،اس کاربار کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ قوم کھاتے وقت اُس کھانے کا جائزہ نہیں لیتی اور نہ ہی معیار کا کوئی پیمانہ مقرر ہے۔اسی بات سے ہوٹلوں اور ریستورانوں کے مالکان نے فائدہ اُٹھایا اور چکن ہانڈی،چکن بروسٹ ، چکن بہاری،چکن تکہ ، چکن تندوری، چکن ملائی بوٹی،چکن ریشمی کباب،چکن بریانی،چکن پلائو،چکن کارن سُوپ اور نہ جانے کس کس نام سے مُرغی کے گوشت کے پکوان متعارف کروادیے گئے ہیں جسے عوام " مُفت کا مال " سمجھ کر بھرپور انصاف کرتے ہیں اور اس بسیار خوری کے دوران یہ بات بھی فراموش کردیتے ہیں کہ وہ حلال کھا رہے ہیں یا حرام؟پَرَند صحت مند تھا یا بیمار؟ کھانے میں کوئی بُو باس تو نہیں!
یہ غذائیں سَستی یا کم قیمت نہیں ہوتیں بلکہ کسی مشہور برانڈ کے معمولی برگر کی قیمت بھی اچھی خاصی ہوتی ہے اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ مُرغی کے گوشت کا معیار کیسا ہے؟
مُنتظمِ مُرغی خانہ ،مُرغی فروشوں کو مُرغیاں سپلائی کرتا ہے اور اس کے ذمہ پولٹری فارم میں موجود تمام مُرغیوں کی نگہداشت بھی شامل ہے اور ساتھ ہی فارم کی صفائی سُتھرائی اور مُرغی اور انڈوں کی حفاظت کے بہتر انتظامات بھی ان تاجروں کی ذمہ داری ہے۔
"سِیزن" میں پولٹری کے پیشے سے وابستہ افراد کی چاندی ہو جاتی ہے اور موسمِ سرما میں بھی مُرغی اور انڈوں کے کاربار میں نفع کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
چکن کارن سُوپ اور مُرغ یخنی کے کاربار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یوں منتظمِ مُرغی خانہ منھ مانگی قیمتوں پر بھی مُرغیاں اور انڈے فروخت کرتا ہے۔
مغرب میں مُرغ بانی کا پیشہ اور پولٹری کے کاموں کو انتہائی مہارت اور صفائی سُتھرائی کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے لیکن وہاں بھی یہی خطرہ درپیش ہے کہ مُرغی کی صحت کیسی تھی؟لیکن وہاں موجود " فوڈ اینالائسز"(غذا کے بہتر معیار کا اندازہ کرنے والے افراد) بھی موجود ہوتے ہیں۔اس لیے کسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔