Description
تفصیل
"جُوتا ساز"جوتے بنانے والے اور جوتوں کی مَرَمَّت کرنے والوں کو موچی کہا جاتا ہے ۔یہ ایک بُنیادی تفریق ہے جو موچی اور جوتا ساز میں کی جاسکتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو کام دونوں کا ایک ہی ہے یعنی جوتے بنانا۔
"کوبلر کوبلر ، مینڈ مائی شُو" (والی) نظم یقیناً آپ کے بچپن کی سنہری روپہلی یادوں کو تازہ کردے گی۔
کسی زمانے میں جُوتا سازی مقبول گھریلو صنعت ہوا کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ بڑے پیمانے پر ایک کاربار کی صورت اختیار کرتے ہوئے ایک بڑی صنعت بن گیا اور اب مختلف قسم کے جوتوں کے علاوہ بُوٹ‘ سینڈل‘پمپیز، ہائی ہیل،پینسل ہیل،فلیٹ شُوز،مکیزن(مُکیشن)،جوگرز، جاگنگ شُوز، کوٹ شُوز وغیرہ بنائے جانے لگے ہیں۔ ان جوتوں کو بنانے کے لیے چمڑا ‘ لکڑی‘ ربر‘ پلاسٹک‘ جُوٹ‘ وغیرہ کا استعمال کثرت سے کیا جانے لگا۔ اس سلسلہ میں مُلک چین تمام ممالک کی جُوتا ساز کمپنیوں پر بازی لے گیا ہے اور چائنا ساختہ نرم و ملائم جُوتیاں،وبرم سولز کے آرام دہ جُوتے اور گھر میں استعل ہونے والی دیدہ زیب چپلّیں ہر مُلک میں مقبول ہو رہی ہیں۔
تمام جوتا ساز کمپنیاں اپنے جُوتوں کی مضبوطی کو بہتر اور یقینی بنانے کے لیے مختلف تجربات کرتی رہتی ہیں ۔ابتدا میں ان جوتوں کے ناپ کے لیے کے لیے لوہے اور لکڑی سے ایک فرما تیّار کیا جاتا تھا جس کی جگہ اب پلاسٹک نے لے لی ہے۔ جوتے کی ایک جوڑی کے لیے دو فرمے بنائے جاتے ہیں ایک داہنے پیر کے لیے اور دوسرا بائیں پیر کے لیے۔ روایتی جوتا بنانے والے جوتے بنانے کی پندرہ سے زائد تراکیب استعمال کرتے ہیں۔مثلاً کیلیں ٹُھونک کر بنائے جانے والے‘ گوٹ لگا کر بنائے جانے والے ، مضبوطی سے چَسپَاں کرنے والا گوند لگا کر بنائے جانے والے اور اس کے علاوہ بے شمار تراکیب ہیں جو کم و بیش ساری کی ساری یورپی مملک میں رائج ہیں۔
رومی‘ جنگوں میں اپنے پیروں کے گرد ’’فر‘‘ یا کھال لپیٹ لیا کرتے تھے اور ان کے اوپر سینڈلز یا جوتے پہن لیا کرتے تھے۔اکثر یہ جوتے کھڑاویں نُما ہوا کرتے تھے اور اُن میں تسمے بھی ہوتے تھے۔
پیروں کو گرم رکھنے کے لیے لکڑی اور چمڑے کے جوتے استعمال کیے جاتے تھے۔ جن کی دو تہوں کے درمیان میں بھوسا وغیرہ بھر دیا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں جوتوں کی ایک صنعت میں استعمال شدہ پُرانے کار ، ٹرک ،بس یا کسی گاڑی کے ٹائرز کا استعمال کر کے جوتوں کی قیمت کو خاصا نیچے لایا گیا ہے اور اُن ٹائروں سے نہایت دل کش جُوتے تیار کیے جا رہے ہیں جو دیدہ زیب تو ہوتے ہیں لیکن دیرپا نہیں ہوتے۔
برصغیر میں مختلف ناموں سے جوتے بنائے جاتے ہیں مثلاً ناگرہ‘ سلیم شاہی‘کُھّسا‘ پشاوری سینڈلز وغیرہ۔خواتین کے لیے جو جوتیاں بنائی جاتی ہیں ان پر اکثر اوقات پھول پَتّیاں بنا دی جاتی ہیں۔
گو کہ اب بھی کچھ موچی ایسے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے بہترین جُوتے تیار کرتے ہیں۔ اُن جوتوں میں زیادہ تر سِلائی کا کام زیادہ ہوتا ہے اور اتنی "فنشنگ" بھی نہیں ہوتی جتنی کسی کمپنی ساختہ جوتے میں ہوتی ہے۔ ان جوتوں میں سِلائی ہوتی ہے اور کیلوں کا استعمال بھی کِیا جاتا ہے۔یہ جوتے چمڑے سے بنائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی عمر بھی مصنوعی چمڑے سے بنائے جانے والے جوتوں کے مقابلے میں طویل ہوتی ہے۔لیکن اب ملکی اور بین الاقوامی طور پر بڑی بڑی کمپنیاں مشینوں کے ذریعے جوتے بنانے کی صنعت سے وابستہ ہو گئی ہیں۔
فی زمانہ دُنیا بھر میں جوتا سازی کی بڑی بڑی صنعتیں قائم ہوچکی ہیں جہاں ماہر ڈیزائنرز اور جوتا سازنِت نئی طرز کی جُوتیاں بنا رہے ہیں اور کمپنیوں کے مالکان دُنیا بھر میں اپنی پراڈکٹس بھیج کر اچھا خاصا مُنافع حاصل کررہے ہیں۔