Description
تفصیل
حِجاب کے لُغوی معنی پردہ کے ہیں۔ یہ اصطلاح عموماً خواتین کے لئے استعمال کی جاتی ہے خاص کر مسلم خواتین میں حجاب کا تصور عام ہے۔ چنانچہ حجاب کے لئے مختلف قسم کے لبادے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان ملبوسات کی بناوٹ دراصل مختلف خِطّوں کے باشندوں کی اپنی رَوِش کے مطابق ہے۔ مثلاً برقعہ جس کو عبایہ بھی کہتے ہیں۔ یہ عموماً کالے رنگ کا ایسا لبادہ ہے جس کے دو حصّے ہوتے ہیں۔ گلے سے لیکر ٹخنوں تک کا ایک ڈھیلا ڈھالا، پوری آستینوں کے ساتھ ایک پہناوا جس میں سامنے کی جانب عموماً چاک ہوتا ہے جسے بڑے بڑے بٹنوں کے ساتھ بند کیا جاتا ہے یہ بٹن اس لبادہ میں خوبصورتی کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ دوسرا حصّہ نسبتاً باریک کپڑے کا ہوتا ہے جسے سَر کے اوپر سے لیکر شانوں پر اور سینے پر پھیلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسی میں ایک باریک جالی کا نقاب بھی ہوتا ہے جس کے ذریعے چہرہ کو ڈھانپنے کا کام سر انجام دیا جاتا ہے، صرف آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ بعض خواتین پورے چہرہ کو ڈھانپتی ہیں اور جالی دار کپڑے کے پیچھے سے ہی دیکھنے کا کام کرتی ہیں۔
بعض خواتین شٹل کاک برقعہ پہنتی ہیں جس میں ایک ٹوپی نُما حصہ ہوتا ہے جس کے ذریعے اسے پہنا جاتا ہے اور باقی تمام کپڑا گولائی نما ڈھیلا لبادہ ہوتا ہے۔ آنکھوں کی جگہ پر جالی بُنی جاتی ہے۔ یہ خاصی قدیم طرز کا لبادہ ہے۔ سرحدی علاقوں اور پنجاب کے بعض علاقوں میں آج بھی اسی قسم کے برقعہ کا رواج ہے۔
ایک قدیم طریقہ چادر کا ہے جس کے ایک سِرے سے چہرہ کو نصف ڈھانپ لیا جاتا ہے اور چادر کا باقی حصّہ جسم کے اوپر پھیلا لیا جاتا ہے۔
ایک اور قسم کا برقعہ جو برِصغیر میں عام تھا اس میں بھی برقعہ دو لباسوں پر مشتمل تھا۔ زیریں حصّہ ایک لہنگے کی صورت میں پہنا جاتا تھا اور اوپری حصّہ جو گول یا تِکون طریقے پر سِلا ہوتا تھا باقاعدہ سر پر باندھ کر جسم پر پھیلایا جاتا تھا۔ چہرہ پر ڈالنے کے لئے دُہری نقاب استعمال ہوتی تھی جو جالی یا باریک ململ ∕ شیفون کی بنی ہوتی تھی۔ اس قسم کے برقعہ میں آستینیں عموماً نہیں ہوتی تھیں۔ برقع کی یہ قسم آج کل نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ البتہ اسی طرز سے ملتا جلتا برقع بوہری طبقہ میں استعمال ہوتا ہے مگر اس میں نقاب نہیں ہوتی نیز یہ سیاہ رنگ کے علاوہ باقی تمام رنگوں میں پایا جاتا ہے اور تمام دنیا میں بوہری خواتین یہی برقعہ ∕ حجاب استعمال کرتی ہیں۔
تاریخ کے مطالعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس قسم کا سخت حجاب صرف مسلم خواتین میں ہی رائج نہ تھا بلکہ راجپوت ٹھاکروں کا رواج تھا کہ وہ اپنے حرم کی خواتین کو سخت پردے میں رکھا کرتے تھے اور شدید قسم کی پردہ داری ان کی شان تھی۔ گھر سے باہر نکلنے یا سفر وغیرہ کے دوران اُن خواتین کو اسی قسم کا حجاب کرنا لازم تھا۔
عرب میں بھی کثرتِ استعمال چادر رہی ہے البتہ اب بعض شیوخ اپنے حرم کی خواتین کو عبایہ پہناتے ہیں۔ دورِ اوّل میں مسلم خواتین اپنی جلباب کو حجاب کے طور پر استعمال کیا کرتی تھیں۔