Description
تفصیل
"ساگ" کو اللہ تعالٰی نے انسانی آنتوں کے لیے ایک "برش" کی حیثیت عطا کردی ہے ،یعنی ساگ پات کھانے والا نہ صرف صحت مند اور چاق و چوبند رہتا ہے بلکہ نظامِ انہضام کی کئی بیماریوں سے محفوظ بھی رہتا ہے۔ان ساگوں میں بنی نوع انسان کے لیے شِفا کے خزانے مُضمر ہیں کیونکہ ان ساگوں میں معدنیات،سمکّیات اور پانی کی بھی خاصی مقدار شامل ہوتی ہے۔
ان ساگوں میں سرسوں،خُلفہ یا قُلفہ،چولائی ، بتھوے،پالک،میتھی و دیگر ساگ شامل ہیں۔بطورِ غذا ساگ سب سے بہترین سبزی ہے اور "سبزی خوروں" کے لیے تو کسی نعمت سے کم نہیں ۔کچھ ساگوں کا بنانا بھی فن کا درجہ رکھتا ہے۔اس لیے کہ ساگ نہ تو بہت دیر تک چولہے پر پکائے جاتے ہیں ، نہ ہی ان میں پانی کی بھرپور مقدار شامل کی جاتی ہے اور نہ ہی ساگ میں نمک کی غیر معمولی مقدار کی ضرورت پڑتی ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ساگ روٹی یا چپاتی کے بھی رہینِ منّت نہیں ہوتے یعنی بغیر روٹی کے بھی کھائے جاسکتے ہیں۔
مشہورکہاوت ہے کہ "جب بِلّی" کا ہاضمہ خراب ہوتا ہے تو گھاس پھوس کھا کر صحت مند ہوجاتی ہے۔" ہندُستان میں ساگ بنانے کے نِت نئے طریقے دریافت کیے گئے ،تاریخی اعتبار سے قدیم مِصر میں سایہ دار درختوں کے نیچے اُگنے والی گھاس پُھوس کو انسان نے بطور غذا اور دوا استعمال کیا،علاوہ ازیں یونان کی وادیوں میں بھی گوشت خور قوموں نے ساگوں کا استعمال کیا ۔
بُنیادی طور پر "ساگوں" کا وطن ہِندستان اور پاکستان کو ہی کہا جاسکتا ہے ۔ہندُستان کا علاقہ" اوڈیسہ " Odisha پورے ہندُستان میں ساگوں کی مختلف پیداوار کے لیےمشہورہے۔اوڈیسہ یا اُڑیسہ میں ساگوں کی تقریباً پندرہ اقسام بطور غذا اور دوا کے استعمال کی جاتی ہیں اور پاکستان میں پنجاب کے علاقے ساگوں کی پیداوار اور اُن کی مختلف ڈشیں بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جو مکئی ، گیہوں ،باجرا اور جَو کی روٹی کے ساتھ مزا دے جاتے ہیں۔ساگوں کو گوشت،دال یا مختلف لوازمات کے ساتھ بھی پکایا جاتا ہے اور اس کی افادیت اور غذائیت سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔
اسپین میں بھی ایک زمانے میں مختلف ساگوں کا رواج رہا اور وہاں "پالک" کے ساگ کی بھاجی یا بُھجیا انتہائی رغبت سے کھائی گئی،اسپین ہی میں ساگ کو Odia کا نام دیا گیا۔اس نام سے مُراد پالک کا ساگ ہی ہے جسے اسپین میں مکّھن، پنیر اور بکرے کے گوشت کے ساتھ تیّار گیا۔
امریکا میں ساگ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ "ہالی وُڈ" میں بچّوں کا مقبول ترین کارٹون کردار "پوپائے دی سیلر مین" تقویت حاصل کرکے اپنے دشمنوں سے مُقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ "پالک" کے ساگ کا ٹِن پیک کھول کر کھاتا ہے اور اپنے سے کئی گُنا زیادہ جسیم اور طاقت ور دشمنوں کو لمحوں میں چِت کردیتا ہے۔
پاکستان میں پالک کے ساگ کی سادہ سی بُھجیا مشہور ہے۔پالک یا کسی بھی ساگ کے پتّے اچھی طرح دھو کر کاٹ لیے جاتے ہیں اور کسی کڑاہی یا دیگچی میں یا دیہاتوں میں مٹی کی ہانڈی میں اِن ساگوں کو دھیمی آنچ پر اِن کے اپنے پانی میں پکالیا جاتا ہے۔بعد میں لہسن اور دیسی مکھن کا تڑکا لگا دیا جاتا ہے۔شہروں میں دیگچی میں تھوڑا سا روغن ڈال کر ایک آدھ ثابت لال مرچ کچل کر ڈال دی جاتی ہے اور پھر ساگ کے پَتّے ڈال کر ڈھکنا بند کرکے بھاپ میں پکالیا جاتا ہے۔ان تمام ساگوں میں "سرسوں کا ساگ" بنانا خاصی مہارت کا طالب ہے کیونکہ اسے باقاعدہ گھوٹنا پڑتا ہے۔شہر میں یہ کام بلینڈر مشینیں سرانجام دیتی ہیں جبکہ دیہاتوں میں یہی کام وہاں کی جفا کش خواتین مَٹّی کی پُختہ ہانڈی میں سرانجام دیا کرتی ہیں۔نسلِ نو کے لیے یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ پوری قوّت سے مَٹّی کی ہانڈی میں ساگ گھوٹنے کے باوجود مَٹی کی ہانڈی ٹوٹتی نہیں ہے کیونکہ کُمہار اِن ہانڈیوں کو بھٹّیوں میں خاص طریقے سے مناسب درجۂ حرارت پر پکاتا ہے۔